ظل الہی


ظل الہی

دوسال سے کچھ اوپر ہی گزر چکے ہیں ظل الہی کے بے نام سے یا یوں کہیے کہ بس نام سے اقتدار کو۔ عام لوگ تو کہاں شمار میں کبھی خواص مطلب کسی جید صحافی کی بھی پرچی نہیں نکلی کہ نواز شریف صاحب کا کوئی انٹرویو کر سکے۔ کہ سوال تو جرم ٹھہرا ہو کہ نہ ہو جواب مگر پاس نہیں۔ یا پھر جواب تو بہت ہیں سلیقہ نہیں۔ شاید ڈر ہے کہ یہ صحافی نسل بہت بے تکی واقع ہوئی ہیں کہیں حضور سے کچھ اگلوا نہ لے۔

عجیب منطق ہے۔ کسی کو انٹریو کی اجازت نہیں۔ کسی کو رسائی نہیں۔ بس جو چند وزیر لگا رکھے ہیں اس کام پر۔ جائیے سب چینلز پر۔ کیجئے رام سب اینکرز کو۔ عوام کو تو کیا لینا دینا۔ کہیے جو کہنا ہے۔ شہنشاہ اعظم کی زبان بنے ہوئے ہیں بے شمار۔ دنیا میں کہیں مثال نہیں ہو گی کہ ایک جمہوری حکومت کا سربراہ مملکت اور ایسا ان اپروچ ایبل؟

یہ وزیراعظم صاحب خود سامنے کیوں نہیں آتے؟ چمچوں کی فوج ظفر موج ہے۔ درست مگر ہر بات کا جواب وہ نہیں دے سکتے۔ سربراہ مملکت کو عوام کا سامنا کرنا ہوتا ہے ہمہ وقت۔ مگر یہاں عوام تو در کنار پونے تین سالوں میں شاید ہی کسی نے نواز شریف صاحب کو کسی صحافی کوانٹرویودیتے پایا ہو۔ کہاں اتنا چھپا کے رکھا ہوا ہے؟

الطاف بھائی نے پردے میں رہنے دو کسی اور بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا مگر ن لیگ نے تو وزیراعظم کو ہی پردے میں۔۔۔۔ ہفتہ وار نہ سہی مہینہ دو مہینہ بھی چھوڑیے کہیں چھ مہینے سال میں ہی سہی۔ کبھی تو روبرو ہوں۔

اور پھر ایک صدر صاحب ہیں۔ ان کا نام ممنون حسین ہے اور وہ صدر پاکستان ہیں اور بس۔ اس کے بعد کسی کوکچھ معلوم نہیں کہ وہ کب کہاں کیسےاور کیوں ہوتے ہیں۔

دنیا کے ہر ملک میں لیڈر ہر قومی مسئلے پر سب سے پہلے سب سے آگے اور سب سے زیادہ حاضرجواب پایا جاتا ہے۔ اور پاکستان میں؟ سب سے آخر سے بھی آخر میں۔ وہ بھی اگر بہت پریشر ہوتو ورنہ اس سے بھی آخر میں۔ سب سے پیچھے سے بھی پیچھے۔ دیوار کے پیچھے۔ بلٹ پروف شیشے کے پیچھے۔ اس سے بھی کہیں پیچھے۔ اور سب سےزیادہ غائب دماغ نا سمجھ بھولے بادشاہ بلکہ سائیں لوک ٹائپ یا پھر اس بھی گیا گزرا؟

کوئی بادشاہ سلامت حضور عالی مرتبت کو
سمجھائے اور ان کودرباریوں کے خول سے باہر نکالےکہ دیکھو دیکھو کون آیا شیر آیا شیر آیا کا نعرہ لگانے والوں کی ہی عزت کا کچھ خیال ہو۔


Previous
Next Post »