یہ میری پہلی محبت کی ایک سچی کہانی ہے جو میں آج آپکو سنا رہا ہوں۔۔۔دوستو میں آپ کو بتانہیں سکتا کہ میرے ساتھ کیا ہوا۔ جو میرے ساتھ ہوا ہے وہ اللہ کسی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے، میں آج آپکو اپنی محبت کی دردناک کہانی سنا رہا ہوں جسے سن کر آپکی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے۔
میرے گھر کے سامنے ایک لڑکی رہتی تھی جس کا نام سعدیہ تھا۔ بہت خوبصورت تھی ، گورا رنگ، لمبے لمبے بال، گلابی ہونٹ، نیلی آنکھیں، آنکھیں ایسی کہ ڈوب جانے کو جی چاہے۔اسکی ہرنی جیسی چال تھی، جب وہ چلتی تو بندہ دیکھتا ہی رہ جاتا۔ روز اسے کالج جاتے دیکھتا تو سارا دن سکون سے گزرتا، جس دن اسے نہ دیکھتا بہت بے چینی ہوتی تھی۔میری بہن اور وہ ایک ہی کلاس میں پڑھتی تھیں اس لئے اس کا ہمارے گھر آنا جانا ہوگیا۔ وہ میری بہن کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتی اور لیپ ٹاپ پر کام کرتی رہتی اور میں کھڑی سے چھپ کر اس کا دیدار کرتا رہتا۔ وہ ممجھے دیکھتی تو اگنور کردیتی پھر آہستہ آہستہ اس نے مجھے دیکھ کر مسکرانا شروع کردیا۔
مجھے کسی نے بتایا تھا کہ اگر لڑکی ہنسی تو سمجھو پھنسی۔۔ مجھے یقین ہوگیا کہ آگ دونوں طرف لگی ہوئی ہے۔ ایک دن وہ مجھے آئی لو یو ضرور بولے گی۔ میں رات کو سونے سے پہلے گھنٹوں اسکو یاد کرتا رہتا، تصور ہی تصور میں اس سے باتیں کرتا رہتا۔ کبھی کبھی وہ خواب میں بھی آجاتی۔اسکی یاد میں میری نیند، میرا چین سب کھو گیا تھا۔ میں کتاب کھولتا تو مجھے ڈایا گرام کی جگہ اسکی تصویر نظر آتی۔ وہ جب آتی تو میں دروازہ کھولتا ، وہ مجھے دیکھ کر مسکراتی اور شرم سے نظریں جھکا کر آگے چلی جاتی۔ میں نے بھی اب گھر میں بن ٹھن کر رہناشروع کردیا کیونکہ وہ کسی بھی وقت آسکتی تھی۔ اگر وہ مجھے گندے کپڑوں میں دیکھتی، شیو بڑھی ہوئی دیکھتی تو کیا سوچتی۔
مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ میں اسے آئی لو یو کیسے بولوں؟ کیونکہ وہ اسی وقت آتی تھی جب میری بہن گھر ہوتی تھی۔ مجھے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ اگر خون سے خط لکھو وہ تمہارا خون سے لکھا ہوا خط دیکھ کر تڑپ پڑے گی۔ میں نے اس مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایک سوئی لیکر اپنا خون نکالا اور اپنے خون سے ایک کاغذ پر "آئی لو یو" لکھ دیا اور خط سنبھال لیا۔
اگلے دن میری بہن اور ماں بازار گئے ہوئے تھے۔ اچانک دروازے پر بیل ہوئی۔ میں اٹھا اور دروازے پر گیا۔ وہ لڑکی میرے سامنے تھی، میں نے اسکو دیکھا اس نے مسکراتے ہوئے مجھے دیکھا اور آنکھیں نیچے جھکالیں۔۔ پھر اس نے تھوڑے توقف کے بعد پوچھا کہ میری بہن گھر میں ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس نے شرماتے ہوئے کہا کہ آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے میں اندر آسکتی ہوں۔ یہ سنتے ہی میں ہواؤں میں اڑنے لگا، مجھے اپنے پیار کی منزل قریب نظر آرہی تھی، میں تصور میں کھوگیا۔۔ میں خیالوں میں ڈوباہوا تھا۔ اسکی آواز نے مجھے جھنجھوڑا کہ میں اندرآسکتی ہوں۔ میں راستے سے ہٹ گیا۔ میں اپنے کمرے میں آگیا تو وہ بھی پیچھے پیچھے میرے کمرے میں آگئی۔ میں نے اسے بیٹھنے کو کہا، وہ بیٹھ گئی۔
میں نے اسے کہا کہ آپ نے مجھ سے کوئی بات کرنا تھا۔ لیکن وہ ہچکچارہی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ اس نے مجھے آئی لویو کہنا ہے لیکن وہ کہہ نہیں پارہی۔ اس نے نظریں نیچے گاڑھی ہوئی تھیں۔ میں نے اسے کہا کہ آپ نے جو کہنا ہے کھل کر کہیں، میں سن رہا ہوں۔ اس نے گھبراتے ہوئے مجھے ایسا کچھ کہہ دیا کہ میرے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی، میرے ارمان چکنا چور ہوگئے۔
اس نے مجھے کہا کہ "بھائی جان! وائی فائی کا پاس ورڈ مل جائے گا؟"
اے ظالم! یہ تونے کیا کیا، میں نے تو تمہاری خاطر اپنا خون تک بہادیا تھا۔تمہاری خاطر تو میں نے کھانا پینا چھوڑدیا تھا اور راتیں تمہیں یاد کرکے گزاری تھیں۔ آخر میں اس بے وفا کیلئے شعر
تمہاری یاد میں ہم نے رو رو کر گھڑے بھر دئیے
تم آئے اور نہا کر چل دئیے
Next
« Prev Post
« Prev Post
Previous
Next Post »
Next Post »
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
EmoticonEmoticon