http://www.alarabiya.net/views/2009/11/04/90154.html
قاضی حسین احمد
کچھ دوست اور بعض تبصرہ نگار پاکستان کے موجودہ ابتر حالات کو 1970 اور1980 کے عشرے میں سوویٹ یونین کی افغانستان میں مداخلت اور اس مداخلت کے خلاف افغانوں کی مزاحمت اور اس مزاحمت میں پاکستان کی حکومت اور جماعت اسلامی کے تعاون کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ان کے خیال میں اگر سوویٹ یونین کی مزاحمت نہ کی جاتی تو امریکہ کو دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا موقع ملتا اور وہ پوری دنیا میں یوں اپنی من مانی کرنے پر اصرار نہ کر سکتا۔عالمی نقشے اور عالمی طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کے اس بہت بڑے واقعے میں ایک اہم کردار ادا کرنے کے حوالے سے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ میں اس عرصے میں صورت پذیر ہونے والے بعض واقعات سے پردہ اٹھاؤں ۔
ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور حکومت میں جب افغانستان میں ظاہر شاہ کا تختہ الٹا دیا گیا اور محمد داؤد برسراقتدار آگئے تو کمونسٹوں اور افغان نیشنلسٹوں کو حکومت میں نمایاں عمل دخل حاصل ہو گیا۔ اس زمانے میں افغان حکومت کی شہ پر پشاور اور صوبہ سرحد کے بعض دوسرے اضلاع میں بم دھماکے ہونے لگے تھے۔ان دنوں عبدالولی خان اپوزیشن لیڈر تھے ان کے اوپر قاتلانہ حملہ بھی ہوا تھا جس کا ذمہ داروہ جناب بھٹو صاحب کوگردانتے تھے اور صوبہ سرحد میں جوبم بلاسٹ ہوتے تھے ان کا الزام عبدالولی خان صاحب کی پارٹی پر لگتا تھا جنہیں افغانستان ،بھارت اور روس کی سرپرستی حاصل تھی یا یہ سمجھا جاتا تھا کہ انہیں ان طاقتوں کی سرپرستی حاصل ہے۔
محمد داؤد کے انقلاب سے قبل محمد ظاہر شاہ کے دور حکومت کے آخری سالو ں میں افغانستان میں چینی اورروسی کمونسٹوں نے زور پکڑ لیا تھا اور یونیورسٹیاں اور کالج ان کی سرگرمیوں کا مرکز تھے۔کمونسٹوں اور نیشنلسٹوں کے ساتھ ساتھ مسلمان نوجوانوں کی اسلامی تحریک بھی منظم ہو گئی تھی یہ تحریک بھی باد شاہت کے نظام کے حامی علماء ،مشائخ اور پیروں کی مخالف تھی اس طرح اگر چہ تعلیم یافتہ نوجوانوں میں تو انہوں نے اپنے انقلابی پیغام کی وجہ سے اثرو رسوخ حاصل کر لیا تھا لیکن وہ مذہبی طبقے کی غالب اکثریت سے کٹ کر الگ تھلگ ہوگئے تھے۔
افغانستان کے کچھ دانشور جو روسی توسیع پسندی سے خائف تھے اور جنہیں نظر آرہا تھا کہ روس کی نظریں افغانستا ن پر جمی ہوئی ہیں وہ افغان کمونسٹوں کے ذریعے فوج ،تعلیمی اداروں اور سیاسی اداروں میں اپنے اثرات بڑھا رہا ہے اس کوشش میں تھے کہ کمونسٹ توسیع پسندوں کے خلاف ایک مشترکہ محاذ قائم کریں ۔یہ لوگ بادشاہت کے نظام کے مخالف ہونے کے باوجود بادشاہ کو افغانستان کی ضرورت سمجھتے تھے۔ ایک افغان صحافی منہاج الدین ”گہیز“نے مجھے بتایا کہ افغانستان ایک ٹوٹے ہوئے پیالے کی مانند ہے یہ ٹوٹا ہوا پیالہ بادشاہ کے ہاتھ میں جڑاہوا نظر آتا ہے جب تک اسے جوڑے رکھنے کے لئے ہم ایک دوسرا ہاتھ تلاش نہ کرلیں ہمیں اس بادشاہ کی ضرورت ہے۔
” گہیز“ ظاہر شاہ کے دور حکومت میں قتل کر دیئے گئے ان کے قتل کی ذمہ داری سوویٹ یونین کے خفیہ ایجنسی کے جی بی KGB پر عائد کی گئی جن کو ظاہر شاہ کے دور کے آخری حصّے میں کابل میں مکمل اثرورسوخ حاصل تھا ۔
منہاج الدین گہیز میرے دوست تھے وہ مجھے ملنے کے لئے پشاور آئے اور مولانا سید ابوالا علیٰ مودودی سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا ۔میری موجودگی میں مولانا مودودی سے ان کی مختصر ملاقات ہوئی مولانا ان دنوں بیمار تھے۔سوویٹ یونین کے خطرے کا منہاج الدین گہیز کو اس قدر احساس تھا کہ مولانا سے کہنے لگے کہ مولانا آگ لگ چکی ہے اور ہم اب کنواں کھود کر آگ بجھانے کے لئے پانی نکالیں گے ۔
منہاج الدین کے قتل کے بعد ان کی تعزیت کے لئے میں شمالی افغانستان میں کندوز اور خان آباد کے قریب ان کے گاؤں میں ان کے والد محترم کے ہاں حاضر ہوا انہیں مولانا مودودی کا تعزیتی خط بھی پیش کیا یہ 1973 کا واقعہ ہے اور ان دنوں میں جماعت اسلامی پشاور شہر کا مقامی امیر تھا۔منہاج الدین گہیز کی شھادت کے بعد افغانستان کے نوجوانوں کی تحریک کے ساتھ ہمارا رابطہ قائم ہوا جن سے ابتدائی تعارف خود منہاج الدین گہیز نے کرایا تھا۔ کابل یونیورسٹی کے پروفیسر برہان الدین ربانی اور جناب صبغت اللہ خان مجددی سے بھی پہلی ملاقات کا اہتمام ” گہیز“ صاحب ہی کے ذریعے ہو گیا تھا۔” نوجوانانِ اسلام “ کے جواں سال رہنماء انجینئر حبیب الرحمن جو کابل کے روسی پا لی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ کے طالب علم تھے پشاور تشریف لائے۔
داؤد کا انقلاب آچکا تھا انہوں نے بھی مولانا مودودی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی میں انہیں لاہو لے آیا۔مولانا مودودیکے ساتھ تبادلہ خیال ہوا۔عمر کے لحاظ سے جواں سال تھے لیکن عقل و فہم کے لحاظ سے پختہ کار مفکر تھے۔ انہوں نے کہا کہ کمونسٹ اور نیشنلسٹ روسی قیادت میں پاکستان اور افغانستان دونوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کر کے توڑنا چاہتے ہیں اور ہم جماعت اسلامی اور پاکستان کی دینی قوتوں کے ساتھ مل کر دونوں ممالک کو اسلام کے رشتہء اخوت سے جوڑنا چاہتے ہیں ۔ہم نے ان کے ساتھ تعاون کا وعدہ کیا ۔وہ جب پاکستان سے لوٹ کر چلے گئے تو کچھ ہی دنوں بعد انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا اور انہیں سزائے موت دیدی گئی۔
ان دنوں پشاور اور کابل میں ہوائی جہاز کی سروس موجود تھی ۔ہوائی جہاز سے جانے والوں کو کابل ائیر پورٹ پر ویزا مل جاتاتھا۔میں ان دنوں سرحد چیمبر آف کامرس کا سینئر نائب صدر تھا اس منصب کا فائد ہ اُ ٹھاتے ہوئے کابل ایئر پورٹ پر ویزا حاصل کر لیا اور افغان خفیہ ادارے خاد اور کے جی بی کی نظروں سے بچنے کے لئے پہلے کچھ تجارتی اداروں کا وزٹ کیا اور بعد میں اپنے تحریکی ساتھیوں سے رابطہ کیا۔ یہ رابطہ کن کن طریقوں سے ہوا یہ ایک دلچسپ کہانی ہے جسے انشاء اللہ کبھی اپنی خود نوشت آپ بیتی میں بیان کرونگا۔ واضح رہے کہ اگر افغانستان میں سوویت یونین کی مزاحمت کا نقشہ کار نہ بنا یا جاتاتو وہ افغانستان کو اپنے لئے تختہء جست Launching Pad بنا کر پاکستان اور خلیج پر قبضہ کر چکے ہوتے۔
اور سوویٹ یونین کے مغربی سیٹیلائٹ ممالک کی طرح اس کے مشرق میں بھی تمام اسلامی ممالک اس کے کمونسٹ سیٹلائیٹ بن چکے ہوتے۔افغانستان کو سوویٹ یونین کے لئے Launching Pad یا تختہء جست بنانے سے روکنے کے لئے اور نہ صرف پورے عالم اسلام کو کمونیزم کے پردے میں روسی یلغار سے بچانے کے لئے بلکہ خود وسط ایشاء کو روسی قبضے سے واگذارکرکے واپس اسلامی دنیا کا حصّہ بنانے کے لئے ضروری تھا کہ روس کا راستہ افغانستان میں روکا جائے۔یہ واضح مقصد افغانستان اور پاکستان کی اسلامی تحریکوں کے سامنے تھا اور جب محمد داؤد خان کے دور حکومت میں افغان پولیس نے کابل یونیورسٹی کا گھیراؤ کر کے استاد برہان الدین ربانی کو گرفتار کرنا چاہا تو ان کے شاگردوں نے انہیں گرفتاری دینے کی بجائے ہجرت کا مشورہ دیا ۔ کابل یونیورسٹی کے اسلامیات کے فیکلٹی کے استاد کو اپنے شاگردوں نے بہ حفاظت باجوڑ اور مہمند کے راستے پاکستان پہنچا دیا۔
میں ان دنوں پشاور میں کیمسٹ ڈرگسٹ کا کاروبار کرتاتھا۔ استاد ربانی ظہر اور مغرب کے درمیان اپنے دو شاگردوں کی معیت میں میری دکان پر پہنچ گئے مجھے خوشگوار حیرت ہوئی انہیں بغلگیر کر لیا ان کو خوش آمدید کہا ان کی مختصرروداد سنی ان کے دو شاگرد انہیں میرے پاس چھوڑ کر اسی وقت واپس چلے گئے اور اس طرح افغان ہجرت اور افغان جہاد کی ابتداء ہوئی اس ہجرت کی خبر نہ پاکستان کی حکومت کو ہوئی نہ امریکہ اور ان کے حواریوں کو۔
پاکستان میں ان دنوں جناب ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی اور ہم ا ن کی حکومت کے خلاف ایک اتحاد کا حصّہ تھے اس اتحاد میں خان عبدالولی خان کی جماعت ایک اہم جماعت کی حیثیت سے شامل تھی ۔محمد داؤد کی حکومت کے ساتھ ان کی جماعت کے تعلقات تھے ان کی جماعت پر پاکستان میں تخریبی کارروائیوں کا بھی الزام تھا اور ان کی جماعت روس کی طرف مائل تھی ہماری مشکل یہ تھی کہ استاد برہان الدین ربانی کو پیپلز پارٹی کی حکومت اور اے این پی کے کارکنوں دونوں کی نظروں سے بچا کر رکھناتھا۔
استاد برہان الدین ربانی نہ اردو جانتے تھے نہ پشتو روانی سے بول سکتے تھے ا س لئے ہم نے انہیں ارباب محمد سعید خان کے ڈیرے پر ان کے گاؤں سعید آباد میں رکھا اور انہیں بلوچ عالم دین کے حیثیت سے متعارف کرایا جو پشتو اور اردو دونوں روانی سے نہیں بول سکتے ۔استاد ربانی کی ہجرت کے کچھ دنوں بعد صوبہ سرحد کے چیف سیکرٹری جناب نصرمن اللہ مرحوم کی معرفت مولوی فضل ہادی جو شینوار مولوی صاحب کے نام سے مشہورہوئے افغانستان کے سرحدی قصبے ” ہڈہ“ کے دارالعلوم سے پشاور ہجرت کر آئے۔نصرمن اللہ نے ان کا تعارف میجر جنرل نصیر اللہ بابر سے کرایا جو اس وقت آئی جی ایف سی تھے انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو سے بات کی اور اس طرح پیپلز پارٹی نے بھی ہجرت کرنے والوں کو قبول کر لیا ۔اس کے بعد استاد ربانی بھی سعید آباد سے پشاور منتقل ہو گئے اور انہوں نے کچھ دنوں بعد گلبدین حکمت یا ر کو بلالیا جو افغانستان ہی میں زیر زمین چلے گئے تھے اور وہ بھی پاکستان حکومت کے مہمان کے طور پر پشاور میں رہنے لگے۔ ان دنوں حکمتیار،ربانی ،مولوی یونس خالص اور احمد شاہ مسعود پنج شیری ایک ہی تحریک میں شامل تھے اور سب کے سب مہاجرین پشاور میں مقیم تھے۔
ان لوگوں کی تعدادرفتہ رفتہ بڑھتی گئی اور پیپلز پارٹی نے باقاعدہ پشاور میں افغان مہاجر ین کا کمشنریٹ بنا لیا ۔میجر جنرل نصیر اللہ بابر، نصرمن اللہ اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ پیپلز پارٹی کے دوسرے رہنما اس پورے قصے سے بے خبرتھے اور خود بھٹو صاحب یا نصرمن اللہ اور یا جنرل بابر صاحب کے علم میں یہ بھی نہیں تھا کہ یہ لوگ افغانستان کی اسلامی تحریک سے وابستہ ہیں اوران کا تعلق جماعت اسلامی کے ساتھ ہے ۔ جب جنرل ضیاء الحق برسراقتدار آئے تو افغان جہاد شروع ہو چکا تھا۔
جنرل ضیاء الحق کو یہ جہاد اور یہ مجاہدین ورثے میں ملے اس میں شک نہیں کہ ضیاء الحق کے دور میں اس جہاد میں وسعت آئی اور اس میں بڑی طاقتیں ملوث ہو گئیں لیکن یہ صحیح نہیں ہے کہ اس کی ابتداء ضیاء الحق نے کی۔ جنرل نصیر اللہ بابر کا کہنا ہے کہ ہم نے افغان مجاہدین کی ابتدائی پشتیبانی صرف اس مقصد کے لئے کی تھی کہ ہم داؤد کی افغان حکومت کو پاکستان کے اندر تخریبی کارروائیوں سے روکنا چاہتے تھے ہمارے پیش نظر بڑی طاقتوں کی جنگ میں فریق بننا نہیں تھا جب کہ ضیاء الحق نے اس محدود مقصد کی بجائے سوویٹ یونین کو توڑنے کے لئے امریکی آلہء کار بننے کی پالیسی اپنائی لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغان مزاحمت اللہ کے بھروسے پر شروع کی گئی تھی اور اللہ کی مشیت سے اسے سوویٹ یونین کے پرزے اُڑانے کا ذریعہ بنا۔
یہ تحریک جس طرح روسی توسیع پسندی کے خلاف تھی اسی طرح یہ امریکی استعمار کے بھی خلاف تھی اور سوویٹ یونین کے انخلاء کے بعد یہ افغانستان میں ایک اسلامی حکومت کا قیام چاہتی تھی اس تحریک کی بیش بہا قربانیوں کا مقصد روسی استعمار کی بجائے میں امریکی استعمار کے لئے راستہ صاف کرنا ہر گز نہیں تھا امریکہ کی یہ خام خیالی تھی کہ اس نے سوویٹ یونین کو شکست دیدی اور یہ دنیا یونی پولر دنیا (یک محوری دنیا) بن گئی۔افغان مجاہدین نے سوویٹ یونین کے انخلاء کے بعد امریکی استعمار کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھی ہے دینا بھر کی اسلامی قوتیں ان کی پشت پر ہیں وہ حکومت پاکستان سے سوال کررہی ہیں کہ اگر روسی قبضے کے خلاف افغانستان میں مزاحمت جہاد تھا تو امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت کیوں جہاد نہیں ہے۔ افغانستان کی تاریخ پر روشنی ڈالتے ہوئے ہمارے قومی شاعر علامہ محمد اقبال نے فرمایا ہے:
کڑکا سکندر ۔۔۔۔۔۔۔ بجلی کی مانند
تجھ کو خبر ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اے مرگ ناگاہ
نادر نے لوٹی ۔۔۔۔۔۔۔ دلِّیِ کی دولت
اک ضرب شمشیر ۔۔ افسانہ کو تاہ
افغان باقی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہسار باقی
الحکمُ لِلّٰہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الملکُ لِلّٰہ“
حالیہ تاریخ میں دو سپر طاقتیں افغانستان کے بھاری پتھر کو چوم کے پسپائی اختیار کر چکی ہیں۔اب تیسری سپر طاقت کی باری ہے۔
(فاضل مضمون نگار جماعت اسلامی پاکستان کے امیر رہ چکے ہیں، بشکریہ روزنامہ جنگ)
Next
« Prev Post
« Prev Post
Previous
Next Post »
Next Post »
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
EmoticonEmoticon